شاہد جمال
تاریخ بیک وقت کئی سارے واقعات و حادثات کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اور پھر یہ بہت حد تک ہم عصر مؤرخین پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ تاریخ مرتب کرتے وقت کس واقعے کو مرکزی موضوع بناتے ہیں، کسے حاشیہ پر جگہ دیتے ہیں اور کسے شعوری طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہر دور میں تاریخ نویسی کا جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے وہ بہت ہی سلیکٹو رہا ہے۔ آخر کس بنیاد پر مؤرخین یہ طے کرتے ہیں کہ کون سا واقعہ اہم ہے اور کون سا غیر ضروری؟ کسے مرکزی موضوع بنایا جائے اور کسے حاشیہ پر جگہ دی جائے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تاریخ لکھنے والے منافق اور متعصّب تھے؟ اور صرف مؤرخین ہی کیوں؟ بحیثیتِ قاری منافق اور متعصّب تو ہم بھی ہیں۔ کیونکہ ہم بھی سیلیکٹو ہیں، ہماری دلچسپی بھی انہیں واقعات سے وابستہ ہے جو قومی نصاب کی صورت میں ہمیں رٹا دیا گیا ہے۔ ہم اتنا ہی دیکھ اور پڑھ پا رہے ہیں جتنا ہمیں دکھایا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی تاریخ کی کتاب کے حاشیے پر لکھی عبارت کو پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی ان واقعات و حادثات کی تلاش و جستجو میں کوشاں ہے جسے غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
15 اگست 1947 کو ہمارا ملک ہندوستان انگریزوں کی حاکمیت سے آزاد ہوا۔ آج، آزاد ہندوستان کا جشن مناتے ہوئے سات دہائیاں بیت چکی ہیں۔ لیکن یومِ آزادی کے پسِ پردہ ملک کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے کربناک واقعات کو یکسر بھلا دیا گیا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور لاکھوں جا نیں تقسیم ہند کی نذر ہو گئیں۔ ملک کے کئی حصوں میں لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ سڑکوں پر بکھری مردہ لاشوں سے کہیں زیادہ تعداد زندہ لاشوں کی تھی جو اپنوں سے بچھڑنے کی وجہ سے سکتے میں آ گئے تھے۔ راہی معصوم رضا اپنے مشہور اپنیاس 'ٹوپی شکلا' میں لکھتے ہیں کہ "لاش! یہ شبد کتنا گھنونا ہے۔ آدمی اپنی موت سے، اپنے گھر میں، اپنے بال بچوں کے سامنے مرتا ہے تب بھی بنا آتما کے اس بدن کو لاش ہی کہتے ہیں اور آدمی سڑک پر کسی بلوائی کے ہاتھوں مارا جاتا ہے، تب بھی بنا آتما کے اس بدن کو لاش ہی کہتے ہیں۔ بھاشا کتنی غریب ہوتی ہے۔"
15 اگست کی شب، نہرو کے خطاب کو سننے کے لیے اور جشن آزادی منانے کے لیے دلّی کے لال قلعے میں جتنے لوگ جمع تھے اس سے کہیں زیادہ لوگ پنجاب اور بنگال میں تقسیمِ ہند کا ماتم منا رہے تھے۔ مہاتما گاندھی، جنہوں نےانگریزوں کے خلاف تحریکِ آزادی میں اہنسا کو بنیادی اصول کے طور پر پیش کیا تھا، تقسیمِ ہند کے وقت انہوں نے اپنی آنکھوں کی سامنے ہنسا ہو تے ہوئے دیکھا۔ 15 اگست 1947 کو گاندھی جی آزادی کا جشن منانے کے لیے دلّی میں نہیں تھے بلکہ تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بجھانے کے لیے نووا کھلی، بنگال میں تھے۔ اور لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر امن کی اپیل کر رہے تھے۔
جب بھی ملک میں کوئی فساد ہوتا ہے تو اس کا زیادہ تر شکار عورتیں اور بچے ہوتے ہیں، تقسیم ہند کے نتیجے میں جو فساد ہوا اس میں بھی سب سے زیادہ ذہنی و جسمانی تشدّد کا شکار عورتوں کو ہی بنایا گیا، لاکھوں عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور بچّوں کو قتل کر دیا گیا۔ کاش ہم یہ سمجھ پاتے کہ آزادی کی تاریخ ترنگے سے نہیں بلکہ لہو رنگ سے لکھی گئی ہے، یہ دن جشن کا نہیں بلکہ ماتم کا ہے، یہ موقع نہرو کے بھاشن کو سننے سے کہیں زیادہ گاندھی کی اپیل پر دھیان دینے کا ہے۔
ایک طرف جہاں وزیراعظم کے ہاتھوں سے ترنگے کی پرچم کشائی کے منظر کو دیکھنے کے لیے، ہر سال 15 اگست کے دن پورے ملک کی نگاہیں لال قلعے پر جمی ہوتی ہیں، تو وہیں دوسری طرف پنجاب کے امرتسر کے پارٹیشن میوزیم میں محفوظ لاکھوں یادیں آج کے دن چیخ چیخ کر ہم سے یہ کہ رہی ہوتی ہیں کہ ایک سیاہ پرچم تلخ یادوں کے اس مقبرے پر بھی نصب کیا جائے تاکہ ملک کی تقسیم کو دہرانے کا خواب دیکھنے والے اس سے عبرت لے سکیں۔
میں جشن آزادی نہیں مناتا اور اس کے لیے میں آپ میں سے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں، فرض کیجئے چند لمحے کے لیے میں تقسیم ہند کی تکلیف دہ یادوں کو فراموش کر کے آپ کے ساتھ جشن آزادی منا بھی لوں تو کیا یہ سچ بدل جاۓ گا جو ہمارے اور آپ کے سامنے ہے۔۔ آپ کے نزدیک آزادی کا مطلب محض انگریزوں کی غلامی سے نجات ہے تو آپ کو لازمی طور پر جشن آزادی منانے کا حق ہے۔ میرے نزدیک آزادی کا تصوّر بہت ہی وسیع ہے۔ کیا ہمارے ملک کے مسلمان مسلکی تعصّب سے آزاد ہیں؟ کیا ہندو ذات پات کی تقسیم سے آزاد ہیں؟ کیا ہمارا ملک جہالت، بد عنوانی، مذہبی جنون سے آزاد ہے؟ کیا ہمارے ملک میں مظلوم ظالم کے ظلم سے آزاد ہیں؟ اگر میرے ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر سوچیے کہ آپ کون سی آزادی کا جشن منا رہے ہیں؟
ٹیگور نے جس آزاد ہندوستان کا خواب دیکھا تھا اس میں وہ چاہتے تھے کہ فرد کا ذہن ہر طرح کے خوف سے آزاد ہو اور ہر شخص کا سر فخر سے بلند ہو۔ لیکن افسوس کے آج ملک کی تصویر بلکل اس کے بر عکس ہے۔ ہمارے ذہن خوف سے مفلوج ہو چکے ہیں اور سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں۔
اس ملک کی تقسیم 14 اگست 1947 کو نہیں ہوئی تھی۔ زمین پر
سرحد کی لکیر کھینچنے سے بہت پہلے لوگوں کے ذہنوں میں مذہب کی بنیاد پر نفرت کی لکیر کھینچی گئی۔ انگریزوں نے مذہبی تفریق کی بنیاد پر ہماری ذہن سازی کی اور جب ملک میں خونی تماشہ شروع ہوا تو انگریزی حکومت کے نمائندے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کملیشور'کتنے پاکستان' میں لکھتے ہیں کہ "بھارت مها دیش بھارت ہی رہا۔ دشمن اور دوست اسی بھو کھنڈ کا حصہ رہے۔ سکندر، محمد بن قاسم کسی نے اس ملک کونہیں توڑا۔ دوسرا ملک ایجاد نہیں کیا۔ غوری، نادر شاه ابدالی تک نے اس دیش کے نقشہ کونہیں بدلا، افغان آئے، وہ چاہتے تو اس دیش کو توڑ کر ترکستان یا کوئی دوسرا افغانستان بنا لیتے۔ مغلیہ سلطنت نے ہمیشہ اس دیش کی اکھنڈتا کو پہچانا اور منظور کیا۔ انہوں نے اس مہادیش میں اپنے کسی دیش کی تعمیر نہیں کی، یہاں تک کہ اورنگ زیب چاہتا تو اپنی سلطنت سے غیرمسلموں کو اپنی طاقت اور تلوار سے خارج کرکے ایک اسلای دیش کو الگ کر لیتا اور اسے اسلامستان کا نام دے دیتا لیکن وہ تا زندگی اسی انیک ہندوستان کے لیے لڑتا، جیتتا اور ہارتا رہا۔ آخر ایسا کیوں ہوا کہ انگریزوں کی سوداگر قوم کے ہاتھوں پانچ ہزار سالہ پرانا یہ مہا دیش اپنی تاریخ میں پہلی بار تقسیم در تقسیم کا شکار ہوا؟"
ملک میں انڈین نیشنل کانگریس کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کا جنم دراصل اسی مذہبی تفریق کا نتیجہ تھا جس کی بنیاد انگریزوں نے رکھی تھی۔ گاندھی جی کے ساتھ خلافت تحریک میں شامل ہو کرہندوستانیوں نے جس اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا وہ قابل رشک تھا اور تقسیم ہند کے وقت جس نفرت اور درندگی کا مظاہرہ کیا گیا وہ اتنا ہی قابل افسوس تھا۔ ہماری تاریخ رشک اور افسوس دونوں کا مرکب ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ اول الزکر ہمارے نصاب کا مرکزی موضوع ہے اور آخر الذکر کو نصاب کے حاشیے پر جگہ دی گئی ہے۔
19ویں صدی میں انگریزوں نے جس مذہبی تفریق کے نظریہ کی بنیاد ہندوستان میں رکھی تھی، تقسیم ہند کے وقت اُنہوں نے اس نظریہ کو ہند و پاک کے سیاسی لیڈران کو ورثہ میں عنایت کر بر صغیر کو ہمیشہ کے لئے نفرت کی آگ میں جھلسنے کے لیے چھوڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے اتنے سالوں بعد بھی ہمارا ملک نفرت و تعصّب سے آزاد نہیں ہو سکا۔ مذہبی جنون تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، اقلیتوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اس ملک کے دوئم درجے کے شہری ہیں۔ ایک ایسی فضا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں ملک کی مشترکہ تہذیب کا دم گھٹ جائے۔ ملک سے محبت کا نیا معیار قائم کیا جا رہا ہے، ایک ایسا معیار جس میں حب الوطنی کو محض دیش بھکتی گیت اور ترنگے تک محدود کر دیا گیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ جب کسی ملک کی مذہبی اکثریت، سیاسی اکثریت بن جائے تو جمہوریت اور پلورلیزم کا وجود مٹنے لگتا ہے، بد قسمتی سے ہندوستان میں گزشتہ کچھ سالوں سے مذہبی اکثریت، سیاسی اکثریت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جس کا اثر آئے دن دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جمہوری ملک کو نیشن اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی پرزور کوشش کی جا رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی جہاں نیشن اسٹیٹ کا قیام عمل میں آیا اس کی بنیاد ہمیشہ جبر و تشدّد اور خوں ریزی پر رکھی گئی۔ اس سلسلے میں یوروپ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
یقیناً یہ ممکن نہیں کہ ہم تاریخ کی لیباریٹری میں محفوظ اپنے اسلاف کے تلخ تجربات کو مٹا سکیں لیکن کم سے کم یہ تو ممکن ہے کہ ہم ان تجربات سے عبرت حاصل کر سکیں۔ تقسیم ہند کی تاریخ کو سمجھنا اسلئے بھی ضروری ہے تاکہ ہمیں ہمارے ملک کے نقشے پر کوئی اور لکیر کھینچنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اس کہ لیے ضروری ہے کہ نفرت و تعصب کی جو سرحدیں ہمارے ذہنوں میں تعمیر کی جا رہی ہیں ہم پہلے اسے مسمار کریں۔
ملک کی تقسیم سے جڑی لاکھوں کہانیاں ہیں اور اُن لاکھوں کہانیوں میں کچھ کہانیوں کو سنانے والے اب بھی زندہ ہیں۔ یقین جانیے اب اگر یہ ملک تقسیم ہوا تو نہ کہانیاں ہوں گی، نہ سنانے والے ہوں گے اور نہ سننے والے۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی آزادی کے بیانیہ کے ساتھ ساتھ تاریخ کی کتاب کے حاشیے پر مرقوم تقسیم ہند کی کہانیوں کا بیانیہ بھی ہو۔
یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے، وہ جو آگ تھی وہ کہاں کی تھی
کبھی راویان خبر زدہ پسِ واقعہ بھی تو دیکھتے
یہ جو آبِ زر سے رقم ہوئی ہے، یہ داستان بھی مستند
وہ جو خونِ دل سے لکھا گیا تھا، وہ حاشیہ بھی تو دیکھتے
(افتخار حسین عارف)
Ek esa nazmun jo mazi ke dhund ko saf kr ke samne rakhti hai .......❣️
ReplyDeleteBest of luck...
ReplyDeleteماشاء اللہ
ReplyDeleteہر پندرہ اگست کو افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے یہاں سے بات کی شروعات ہوتی ہے لیکن اس افسوس کے ازالہ کی ضرورت کسی نے نہیں سمجھی
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے
ReplyDelete